Available in: English   Turkish   Urdu   Go to media page

ہمیں ماہر سے پوچھنے کا حکم ہے

سلطان الاولیاء

مولانا شیخ ناظم الحقانی

۱۴ مارچ ۲۰۱۰ لفکے، قبرص

دستور یا سیدی۔ (مولانا شیخ کھڑے ہوتے ہیں۔) لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ، سیدنا و نبینا محمد عبدہ ورسولہ۔ زدہ عزن و شرفن و نورن و سرورن حبیب۔ (مولانا شیخ تشریف رکھتے ہیں۔)

اسلام علیکم عبادللہ، اللہ کے بندوں، ثم سلام علیک یا سید القطب العارفین، قطب المتصرف، جو اس زمین کی مخلوق سے متعلق ہر بات کی نگرانی کر رہے ہیں۔ وہ ذمہ دار ہیں، ایک شخص کافی ہے زمین پر موجود ہر مخلوق کی ذمہ داری سنبھالنے کے لئے۔ وہ ذمہ دار ہیں، اور ان کی طاقت کی رسائی دنیا میں موجود ہر شے تک ہے۔ یہ آسمانی نظام ہے۔

اسلام علیکم اے حاضرین، بنی آدم میں سے، جو یہاں حاضر ہیں اور سننا چاہتے ہیں اور سیکھنا چاہتے ہیں، اور سمجھنا چاہتے ہیں اور زیادہ قریب ہونا چاہتے ہیں آسمانی مقامات سے۔

اور ہم کہہ رہے ہیں، اعوذ با للہ من شیطان الرجیم۔ اے ہمارے رب! ہم عاجزی سے مانگ رہے ہیں اپنے رب کے وسیلے سے، کہ وہ جو ذمہ دار ہیں اس زمین پر، وہ ہمیں سمجھ عطا کریں۔ اور جیسے خاتم النبیین ﷺ تمام اقوام کو نصیحت فرما رہے ہیں، وہ کیا نصیحت فرما رہے ہیں؟ ان ﷺ کی نصیحت بہت کامل ہے، جو لوگوں کو اندھیروں اور برائیوں اور شیاطین اور بدی سے بچنے کی تدبیر بتاتی ہے، اور ہمیں سیدھاراستہ دکھاتی ہے۔ اور ہم عاجزی سے سوال کرتے ہیں کیونکہ ہم نہِیں جانتے۔

اللہ تعالٰی فرما رہے ہیں،

فَاسْأَلْ بِه ِ خَبِيرا

"تو کسی جاننے والے سے اس (اللہ) کی تعریف پوچھو۔" (۲۵:۵۹)

اے سلفی علماء! آپ کیا سمجھتے ہیں، جب اللہ تعالٰی فرماتے ہیں، فاسئل بہ خبیرا ؟ جی ؟ اللہ، اللہ۔ یہ ایک سمندر ہے؛ اس لئے، وہ مجھ سے سلفی علماء کو خطاب کروا رہے ہیں کیونکہ وہ بہت مغرور ہیں، کہتے ہیں، "ہم سلفی علماء ہیں!"

فاسئل بہ خبیرا سے کیا مراد ہے؟ اللہ، اللہ۔ یہ ایک آسمانی حکم ہے، اور آسمانی تعلیمات، ہدایات بھی۔ سب لوگوں کو مانگنا چاہئیے فاسئل بہ خبیرا۔ یہ تین الفاظ اس دنیا کے نقشے کو بدل سکتے ہیں اور تمام لوگوں کی زہنیت کو بھی! یہ ایک آسمانی خطاب ہے، بیان ہے، حکم ہے مخلف کے لئے، جو اپنے رب، اللہ تعالٰی کے آگے ذمہ دار ہیں۔ وہ کیا کہنا چاہتا ہے اپنی بارگاہ میں سب سے زیادہ ذیشان بندے، معزز ترین بندے سیدنا محمد ﷺ سے۔ اللہ پہلے ان ﷺ خطاب کرتا ہے اور پھر اس سب سے زیادہ تعریف کئے گئے اور معزز ترین اور محبوب ترین ﷺ کی سمجھ کے ذریعے وہ تمام دوسری مخلوق سے خطاب کرتا ہے۔

پہلی ذمہ داری مخلف کی ہے، اور جیسے اللہ تعالٰی اپنے محبوب ترین بندے سے خطاب کرتا ہے، سب سے زیادہ ذیشان بندے خاتم النبیین ﷺ سے۔ سیدنا رسول اللہ ﷺ کے لئے وہ فرماتا ہے لا تخلف الا نفسا، مخلف، وہ ذمہ داری صرف خاتم الانبیاء ﷺ کے لئے ہے، جو سب سے زیادہ شان و شوکت والے اور تعظیم و تکریم والے ہیں۔ "تم صرف مجھ سے مانگو،" اور تمام انیبیاء جو کچھ بھی مانگنا چاہیں، سیکھنے، سمجھنے، دیکھنے، سننے یا اطاعت کرنے کے لئے، ان کو صرف نبی ﷺ کی ذات کے وسیلے سے مانگنا چاہِئیے۔ "آپ میرے نمائندے ہیں، اے میرے محبوب ترین بندے! وہ مجھ سے براہِ راست نہیں مانگ سکتے، یہ ناممکن ہے؛ وہ جل کر راکھ ہو جائیں گے! انبیاء (ء) مجھ سے براہِ راست مخاطب نہیں ہو سکتے، لیکن وہ آپ کے ذریعے مانگ سکتے ہیں۔" انبیاء (ء) خاتم النبیینﷺ سے مانگتے ہیں اور وہ ان کو وہ سب کچھ عطا کر رہے ہیں جس کا ان سے سوال کیا جاتا ہے، فاسئل بہ خبیرا۔ لوگ بہت سی چیزیں مانگ سکتے ہیں، اور تمام انبیاء بھی مانگ رہے ہیں، لیکن کسی بھی نبی کے پاس کوئی راستہ نہیں کہ جس کے ذریعے وہ براہِ راست مانگ سکے، بارگاہِ ربانی سے، رب کی الوہیہ (وحدانیت) سے۔ پہلے انبیاء کی ذمہ داری ہے مانگنے کی، اس لئے وہ ضرورت مند ہیں کسی ایسے مشرف بندے کے، جو ربانی درجات سے رابطے میں ہو، اور ربانی درجات آسمانی درجات سے بلند ہیں۔ کوئی بھی آسمانی درجات سے اوپر نہیں جا سکتا۔ جب خاتم الانبیاء ﷺ نے جبرائیل (ء) سے فرمایا، "میرے ساتھ آئیں،" تو انہوں نے کہا، "میں نہیں جا سکتا! یہ صرف آپ کے لئے ہے، یا حیب اللہ!"

وہابی لوگ کہاں ہیں؟ ان کی حماقت کے باوجود، اکثر کوئی شخص جب روضہءِ مبارک پر حاضری دیتا ہے اور اپنے ہاتھ اٹھا کو دعا مانگتا ہے تو وہابی لوگ کہتے ہیں کہ یہ شرک ہے! وہ بالکل عقل سے پیدل ہیں! اللہ تعالٰی صرف خاتم الانبیاء ﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں اور صرف ان کو، جہاں کوئی ایک بال برابر بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ حضرت جبرئیل (ع) کہتے ہیں، "اگر میں بال برابر بھی آگے بڑھ جائوں تو میں لاہوت کے نور اور مقامِ ربانی کی ہیبت سے جل کر راکھ ہو جائوں اور کبھی پہلے جیسا نہ رہوں۔ یہ راستہ صرف آپ ﷺ کے لئے کھلا ہے! کوِئی اور یہاں سے آگے نہیں بڑھ سکتا، صرف آپ!" اللہ اکبر!

اور مقدس حکم، فاسئل بہِ خبیرا، اللہ تعالٰی کا آسمانی حکم ہے، تمام اولیاء، انبیاء اور پیغمبروں کے لئے، ان سب کے لئے۔ یہ تعلیم اور ہدایت، تمام انبیاء کو یہ سکھانے کے لئے ہے کہ وہ کوئی چیز براہِ راست نہیں مانگ سکتے اللہ سے۔ ان کو اس خبیرا، یعنی سیدنا محمد ﷺ سے مانگنا چاہئیے! (مولانا کھڑے ہوتے ہیں)۔ اور کوئی خبیرا نہیں ہو سکتا! آپ کو یہ سیکھنا چاہئیے، سلفی علماء! (مولانا تشریف رکھتے ہیں۔) یہ مت کہیں کہ، "ہم فلاں امام کی پیروی کرتے ہیں یا فلاں امام کو مانتے ہیں۔" نہیں، وہ کچھ نہیں جانتے۔ اللہ تعالٰی پہلے اپنے انبیاء اور پیغمبروں سے مخاطب ہوتا ہے، "اگر تم کچھ نہ سمجھ سکو تو میرے خلیفہ سے پوچھو ، جو ازل سے ابد تک میری نمائندگی کر رہے ہیں اور کوئی مجھ تک رسائی نہیں رکھتا، میں نے صرف ان کو اختیار دیا ہے۔"

چنانچہ، آدم (ء) کے دور سے، اللہ تعالٰی نے یہ اصول بنایا کہ کوئی بھی اپنے رب کو براہِ راست نہیں پکار سکتا، بغیر کسی وسیلے کے۔ جی، آدم (ء) بھی خاتم الانبیاء ﷺ کے وسیلے سے رب کو پکارتے تھے۔ اور ابراھیم (ء) بھی نہیں سمجھ سکتےتھے براہِ راست، وہ بھی مانگتے تھے خاتم الانبیاء ﷺ کے وسیلے سے، جو خبیر ہیں، ماہر ہیں! وہ تمام مخلوق کی خبر رکھتے ہیں، اور کسی کے پاس یہ علم نہیں۔ نوح (ء) بھی بارگاہِ ربانی تک نہیں پہنچ سکتے، اور وہ بھی مانگ رہے تھے خاتم الانبیاء، سیدنا رسول اللہ ﷺ سے۔ موسٰی (ء) نہیں مانگ سکتے تھے ؛ اگر طورِ سینا پر خاتم الانبیاء ﷺ کی ایک حقیقت موجود نہ ہوتی؛ ان ﷺ کی حقیقت لا محدود سمندر کی مانند ہے۔ اس لئے وہ مجھ سے کہلوا رہے ہیں کہ موسٰی(ء) بھی رسول اللہ ﷺ کی ایک آسمانی طاقت کے ذریعے عرض کر رہے تھے، ورنہ وہ کبھی رب کی بارگاہ میں نہ حاضر ہو سکتے۔ ان کو ضرورت تھی ایک وسیلے کی، اپنے رب اور اپنی ذات کے درمیان۔ یہ ایک لا محدود سمندر ہے؛ یہ مفہوم ہے فاسئل بہ خبیرا کا!

اے بنی آدم! آپ کو ضرور سوال کرنا چاہئیے اس آسمانی حکم کے بارے میں، کیوں کہ آپ کچھ نہیں جانتے! جی، آپ شاید کہیں، "ہم ٹیکنالوجی کے ذریعے بہت کچھ جانتے ہیں۔" شاید ایسا ہو، لیکن ٹیکنالوجی سے آگے اور کیا ہے؟ وہ کون ہے جس نے ٹیکنالوجی کو آپ کے تابع کیا ہے، آپ کے تصرف میں رکھا ہے، وہ کون ہے؟ اب انسان سوچتا ہے، "ہم اپنی زہنیت(عقل) کے ذریعے سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں!" آپ کی زہنیت صرف ایک اندرونی صفت رکھتی ہے۔ آپ کو ضرورت ہے کہ آپ اپنے خالق سے رابطے میں رہیں! اور کوئی بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا کہ اپنے خالق سے مانگے، کیونکہ اللہ تعالٰی نے یہ اصول بنایا ہے، تمام فرشتوں اور انبیاء کے لئے۔ اپنی ربانیت کے ذریعے، رب اپنے محبوب ترین نمائندے ﷺ کی طرف اشارہ کرتا ہے، فاسئل بہ خبیرا۔ وہ ہمیں تعلیم دے رہا کہ ہم کہاں جائیں خاتم الانبیاء ﷺ سے مانگنے کے لئے، جو ہر سائِل کی حاجت سمجھتے ہیں، اور پھر سیدنا رسول اللہ ﷺ اس سوالی کے واسطے رب کی بارگاہ میں سوال کریں گے۔ اللہ تعالٰی نے خاتم الانبیاء ﷺ کو اپنا مطلق بنایا، مطلق نمائندہ، اور تمام انبیاء ان کے روحانیت کے سمندر سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں۔

اور یہ قرآن کریم میں بیان ہے، اللہ تعالٰی فرماتا ہے، مخاِطبن، وہ خاتم الانبیاء ﷺ سے مخاطب ہے، تو اگر وہ وجود میں نہ ہوتے تو کچھ بھی وجود میں نہ ہوتا! اور اللہ تعالٰی تمام امتوں کو حکم دیتا ہے، "اگر تم کچھ نہ سمجھ سکو، تو تم کو خبیر سے سوال کرنا چاہئیے، جو ماہر ہیں اور جانتے ہیں کہ تمہیں کس چیز کی ضرورت ہے۔ اگر میں ان کو عطا کروں، تو وہ ایسے سمندروں کا علم رکھتے ہیں کے جس کی گہرائی اور منتہا، (انتہا) تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ تمام انبیاء خاتم الانبیاء ﷺ سے سمجھ اور فہم حاصل کرتے ہیں، سید الرسولہ الکرام (انبیاء کرام کے سردار)، سیدنا محمد ﷺ! (مولانا شیخ کھڑے ہوتے ہیں اور تشریف رکھتے ہیں۔) ہمیں بھی سوال کرنا چاہئیے، کیونکہ ہمیں تخلیق کیا گیا ہے کچھ

جاننے کے لئے۔ جب آخری دِن آئے گا، تو فرشتے عام لوگوں سے سوال کریں گے، انبیاء اپنی امتوں سے سوال کریں گے، جِن سے ان کا رب سوال کرے گا، اللہ تعالٰی۔ یہ لوگوں کو تعلیم دینے کے لئے ہے، کہ صرف وہ ﷺ ذمہ دار اور مختار ہیں!

آپ کے پاس ضرور ایسا کوئی شخص ہونا چاہئیے جو آپ سے زیادہ جانتا ہو؛ آپ کو (اسی سے) سوال کرنااور علم حاصل کرنا چاہئیے! اللہ تعالٰی خاتم الانبیاء ﷺ کی امت کو حکم دیتے ہیں، "اگر تم کچھ نہ جانو یا سمجھو تو اس سے پوچھو جو جانتا ہے۔ اس لئے میں سلفی علماء سے پوچھتا ہوں، وہ کون ہے جس سے آپ پوچھتے ہیں؟ کیونکہ شاید وہ کہیں کہ، "ہم اپنے علماء پوچھتے ہیں۔" تو علماء کس سے پوچھتے ہیں؟ کیا ان کا علم خاتم الانبیاء ﷺ تک رسائی رکھتا ہے تاکہ آپ ان سے پوچھ سکیں؟ آپ کو ضرور ایسا شخص ڈھونڈنا چاہئیے جو آپ کو خاتم الانبیاء ﷺ کی مقدس بارگاہ تک لے جا سکے، اور پھر اس سے پوچھنا چاہئیے۔ قیامت کے دن، یوم الحساب پر، یہ مت سمجھیں کے اللہ تعالٰی سب پر فیصلہ سنائے گا، نہیں۔ لیکن رب کے بہت سارے نمائندے ہیں جو اپنی امتوں سے سوال کریں گے۔

فرشتے قبر میں پوچھتے ہیں، "تمہارا رب کون ہے؟ من ربک؟!" شاید آپ کہیں، "یا ربی، میرا رب اللہ تعالٰی ہے۔" فرشتے کہیں گے، "تم نے یہ کس سے سیکھا؟"

"ہم نے یہ خاتم الانبیاء ﷺ سے سیکھا ہے، سب سے زیادہ ذیشان بندے ﷺ!"

ٹھیک ہے۔ یعنی تمہارے اور ان کے درمیان، کون وسیلہ تھا؟

"یہ تھا، وہ تھا۔۔۔کیا تمہارے خیال میں وہ خبیر، ماہرتھا، ہر چیز کا؟ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ کون تمہارا معلم تھا، جس نے تم کو سکھایا کہ تمہارا رب کون ہے۔"

"میرا رب، اللہ تعالٰی ہے۔"

"اور کس نے تم یہ جواب سکھایا؟ کسی معلم کے بنا تم کچھ نہیں سیکھ سکتے۔ وہ کون ہے؟"

اس لئے میں اب سلفی علماء سے پوچھتا ہوں، آپ کس سے اپنا علم حاصل کررہے ہیں؟ آپ کس بنیاد پر اپنے علم کی عمارت تعمیر کر رہے ہیں؟ کسی پتھر پر، یا کسی درخت پر، زمین پر، یا آسمان پر؛ آپ نے کہاں سے علم حاصل کیا؟ وہ کون ہے جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے، فاسئل بہ خبیرا؟ اگر آپ کچھ سیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو اس سے پوچھنا چاہئیے جس کو اختیار ہے آپ کے سوال کا جواب دینے کا۔ جن کے پاس اختیار نہیں، ان کے جواب کی کوئی حیثیت نہیں، اس لئے ان کو بھگا دو!

اس لئے، اب بہت، بہت، بہت کم لوگ ہیں جو اپنے حقیقی وجود اور علم کے لامحدود سمندروں کے دروازوں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ ہر روز کم از کم ۵ منٹ دیں، سمجھنے کے لئے۔ اور آپ نہیں سمجھ سکتے کسی ایسے شخص کے بغیر جو آپ کو سمجھا سکے۔ اس لئے، تمام انبیاء لوگوں کو سمجھ اور ان کی اصل شناخت عطا کر رہے ہیں، ایک مسلمان یا غیرمسلمان کی شناخت۔ اور یہ ایک لامحدود سمندر ہے (علم کا)!

اے لوگو! آئو اور سنو، کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک دن تم پچھتائو۔ یہ مفت تعلیم ہے اور آسمانی تعلیم ہے؛ یہ میرا علم نہیں جو میں نے سیکھا ہے، نہیں۔ یہ سب پر فرض ہے کی وہ ایسا سوال پوچھیں علم کے متعلق، اور اس کا مفہوم جانیں۔ اگر آپ ایسا نہ کریں، تو آپ انسانیت کے مقام سے نکال دئیے جائیں اور کچھ نہ سمجھنے والی مخلوق کے ساتھ شمار کئے جائیں، جو آپ کو پسند ہو۔

اللہ ہمیں معاف فرمائے۔

اللہ اللہ، اللہ اللہ، اللہ اللہ، عزیز اللہ

اللہ اللہ، اللہ اللہ، اللہ اللہ، اللہ اللہ، اللہ اللہ، کریم اللہ

اللہ اللہ، اللہ اللہ، اللہ اللہ، سبحان اللہ

اللہ اللہ، اللہ اللہ، اللہ اللہ، اللہ اللہ، اللہ اللہ، سلطان اللہ

حئی، حئی، حئی، حئی

حئی، حئی، حئی، حئی

حئی، حئی، حئی، حئی

حئی، حئی، حئی، حئی

ھوووووووووووووووو۔

فاتحہ۔

استغفر اللہ۔

(۴۵ منٹ) الحمداللہ، الحمدللہ،

الحمدللہ، یا ربی، شکر! شکر، یا ربی!

(مولانا سجدۃالشکر ادا کرتے ہیں، اللہ تعالٰی کے شکر میں۔)

UA-984942-2