۲۱ جنوری ۲۰۱۱ لفکے، قبرس
اسلام علیکم، دستور یا رجال ﷲ مدد۔ مدد یا سلطان ال اولیاء، مدد یا اولیاء ﷲ! امیدونا بمددکم۔
اے لوگو! جب تک تم اﷲ سے دور بھاگتے رہو گے، استغفرﷲ، استغفرﷲ، تم پر لعنت برستی رہے گی اوپر سے اور تمھارے قدمعں کے نیچے سے بھی۔اﷲ جل جلالہ!
اے ہمارے سامعین! مغفرت طلب کرو، کیونکہ یہ آسمانوں کے رب کو پسند ہے۔ وہ جل جلالہ ہے! کیا تمھارا خیال ہے کہ اس کے پاس صرف ایک ہی دنیا ہے؟ اس کے لیئے ایک زرے کو یا ایک دنیا کو تخلیق کرنا ایک برابر ہے۔ اگر وہ ایک دنیا کو ایک زرے میں سمانا چاہے تو وہ اس کے لیئےنہایت آسان ہے۔ وہ اﷲ ہے، جو لا محدود قوت کے اور عظمت کے سمندروں، لا محدود سلطنتوں اور لامحدود خلق کا مالک ہے- عزل سے عبد تک۔ مثال کے طور پر، نائگرا فالز کہاں سے آ رہی ہیں اور کہاں کو جا رہی ہیں؟ صرف اس کا خالق جانتا ہے! کوئی بھی اس کی تمام خدائی صفات سے واقف نہیں؛ یہ نا ممکن ہے۔ وہ واحد ہے، اور کوئی نہیں۔ وہ خالق ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ تخلیق کب شروع ہوئی اور کب ختم ہو گی۔ اس کی انتدا معلوم کرنا ناممکن ہے کیونکہ یہ عزل سے ہے، عزل سے بھی پہلے سے۔ کوئی بھی نہیں جانتا عزل کیا ہے! اﷲ اکبر! (مولانا شیخ کھرے ہوتے ہیں)
اﷲ اکبر! ﷲ اکبر الا کبر! (مولانا شیخ تشریف رکھتے ہیں) ھوووو !
قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُمْ
یقینا تم سے پہلے بہت سے گزر چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔ سورہ آل امران، ۱۳۷
اے لوگو! نا معلوم مخلوق آ رہی ہے قبیر سلطنتوں کے سمندروں سے۔ آتی ہے اور مٹ جاتی ہے، اور اسے کوئی نہیں جانتا۔ اﷲ اکبر! اﷲ اکبر! اﷲ اکبر! (مولانا شیخ کھڑے ہوتے اور پھر تشریف رکحتے ہیں)۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے رب کے آگے شرمندہ ہونا چاہیئے۔ لیکن لوگ نشے میں ہیں، اور بھول جاتے ہیں کہ ہم اپنے خالق کی نگاہ مِیں ہیں اور ہمیں کچھ ایسا نہیں کرنا چاہیئے جو اسے پسند نہ ہو۔ لوگ اپنے ہوش کھو بیٹھے ہیں اور نشے میں ہیں۔ کس لیئے؟ اور وہ منشیات بھی استعمال کرنے پر اتر آئے ہیں۔
اے ہمارے سامعین، مشرق و مگرب تک، شمال سے لے کر جنوب تک، یہ ہمارا عادزی ٹھکانا ہے اور یہاں کوئی بھی ہمیشہ کے لیئے نہیں رہے گا، ختم ! ابھی ہم ایک بہت چحوٹے سیارے، دنیا پر ہیں اور آسمانوں کے رب نے ہمیں وجود بخشا ہے۔ جب ہم وجود میں آتے ہیں تو ہمیں چاہیئے کہ معلوم کریں کہ "کون ہمِن وجود میں لایا؟" ہم کہاں سے آئے ہیں اور کہاں کو جائیں گے؟ کل ہمارا کوئی وجود نہیں تھا، آج ہم وجود میں ہیں اور کل پھر ہمارا وجود مٹ جائے گا۔ ہم تو "مٹ جانے" والے ہیں، پھر ہم نمودار ہوتے ہیں اور دوبارہ مٹ جائیں گے! یہ سب کون کر ریا ہے؟
لیکن لوگ تو نشے میں ہیں، جو کہ شیطان کی طرف سے ہے۔ اﷲ ہمیں اس کے دھوکے اور جال میں پھنسنے سے محفوض رکھے۔ لیکن لوگ سن نہیں رہے؛ وہ مزید مدحوش ہو رہے ہیں۔ ہمارا معدی وجود بھی اس دنیا کی حدود کے علاوہ کچھ نہیں۔ لیکن ہمیں جو آسمانوں سے عطا کیا گیا ہے ہم اسے استعمال نہیں کر رہے۔ ہمارا معدی وجود اس دنیا سے تعلق رکھتا ہے لیکن ہمارا حقیقی وجود آسماناں سے عطا کیا گیا ہے۔ لوگ تو نشے میں ہیں۔ حتہ کہ مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ مسلمان اقوام بھی اس بارے میں نہیں سوچ رہیں۔ اور اگر ایک مومن کسی چیز کے بارے میں سوچے تو آسمانوں کا رب، ہمارا خالق اسے ایک چابی عطا کرتا ہے۔ ہماری سوچ ایک چابی کی طرہ ہے۔ اگر آپ سوچتے ہیں تو آپ کو ایک چابی عطا کی گئی ہے۔ اور اگر آپ اس چابی کو استعمال کریں توآپ کے لیئے ایک دروازہ کھولا جاتا ہے، جس آپ کو یہ پوچھنے پو آمادہ کرتا ہے کہ، "یہ کیا ہے؟" اگر آپ اس بارے میں مزید سوچیں تو آپ کو ایک اور چابی عطا کی جاتی ہے کسی نئے دروازے کی۔ اگر آپ ایک درخت لگائیں تو وہ اگنا شروع کرتا ہےا ور شاید شروع میں چند پھل دے لیکن وقت کے ساتھ زیادہ پھل دینا شروع کر دیتا ہے۔یہ ہماری سوچ کی طرہ ہے: اگر آپ سوچ رہے ہوں گے ، تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ وہ سوچ ایک درخت کی طرح بڑہ کر مشرق و مغرب میں پھیل جائے گا، اور اگر آپ سوچتے رہیں گے تو نئے سے نئے دروازے کھلتے جائیں گے۔ لیکن پھر بھی کوئی بھی نبیؐ کی باتوں کو پوری طرہ نہیں سمجھ سکتا۔ وہ لوگوں سے باتیں کرتے اور مخاطب ہوتے تھے۔ انھوں نے کیا فرمایا؟
تفكر ساعة خير من عبادة سبعين سنة
ایک گھنٹے کا تفقر، ۷۰ سال کی نفلی عبادت سے بہتر ہے۔ (نزحت المجالس)
سچائی کے بارے میں غور کرنا، اپنے باطن کی اور اپنے باہر کی، ۷۰ سال عبادت کرنے سے بہتر ہے، کیونکہ وہ سوچ لامحدود قوت کے سمندر کھول دیتی ہے۔ جب آپ کو ان قوت کے سمندروں تک کی پہنچ عطا کی گئی ہو، تو آپ پا سکتے ہیں زیادہ وے زیادہ علم لامحدود طور پر، اور جب جب آپ نئی عطا حاصل کریں گے تو آپ اپنے خالق کی بڑائی کا جائزہ لیں گے، اور اپنے آپ کو انتہائی چھوٹا پائیں گے۔ آپ دیکھیں گے کہ آپ چحوٹے اور حقیر تر ہوتے جا رہے ہیں اور آپ کا خالق آپ کی نظر میں بڑے سے بڑا ہوتا جا رہا ہے! اﷲ اکبر جلہ جلالہ (مولانا شیخ کھڑے ہوتے ہیں) اﷲ اکبر جلہ جلالہ جلہ عزمتحہ و لا الہ غیرہ ( مولا شیخ تشریف رکھتے ہیں)
اے ہمارے سامعین! اگر آپ اس کو استعمال نہیں کریں گے جو آپ کو عطا کیا گیا ہے، تو آپ پر لعنت برسے گی، اور لعنت لوگوں پر ہر قسم کی مصیبت لاتی ہے! مشرق و مغرب میں آپ پائیں گے کہ لا محدود مصائل ہیں اور کوئی استحکام نہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں اور ایک دوسرے کو مارنا چاہتے ہیں، جو کہ ہمارے آسمانی وجود کی حقمت سے نہیں بلکہ شیطان کی طرف سے ہے۔ وہ لوگوں کو دھوکا دے رہا ہے، ان کے پہچھے بھاگ رہا ہے، ان کو غلط راستوں پر چلا رہا ہے، غلط اور برے کاموں پر اکسا رہا ہے۔ لوگوں کو بو وقوفی سکھا رہا ہے۔ ان کی کوششیں ایسے کاموں پر لگوا رہا ہے جو لوگوں کو خوشی یا عزت نہیں دیتے، نہ ہی حیات الطیباہ عطا کرتے ہیں! شیطان لوگوں کے لیئے ایک دروازہ کھول کر کہ رہا ہے، " اے لوگو! آ کر دیکھو یہاں کیا ہے اور اس سے آپ کیا کر سکتے ہیں! آپ کو اپنی قابلیت، سکت اور قوت معلوم ہونی چاہیئے جو میں آپ کو سکھا رہا ہوں۔اے بنی آدم! آو اور میں آپ کو دکھاوں گا بہت سے طریقے جن سے تم خوش ہو جاو گے۔ میں آپ کو ٹکنالوجی سکھاتا ہوں جس کے زریعے آپ سب کچھ کر سکتے ہیں۔"یہ شیطان کی طرف سے بنی آدم کے لیئے بد ترین تعلیم ہے۔اور اب وہ سوچتے ہیں کہ ہر کام انسانوں کے بجائے ٹکنالوجی سے کروا کر وہ خوشی ھاصل کر سکتے ہیں۔ دنیا کی ہر مصیبت ٹکنالوجی کی طرقی کی وجہ سے آ رہی ہے!
آج کل مشرق و مغرب میں لوگ لاکھوں ڑالر کما رہے ہیں اس بہانے سے کہ، "ہم کیا کریں؟ ہم تو بھوکے پیاسے لوگ ہیں۔ ہمارے پاس کپڑا تک نہیں!" یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اور اب وہ اپنی حکومتوں سے طلب کر رہے ہیں کہ، "ہمیں کام دو۔" اور حکومتیں کہ رہی ہیں کہ، " ہمارے پاس کوئی کام نہیں۔ اب ہم ہر کام ٹکنالوجی کے زریعے کرتے ہیں، اس لیئے یہاں سے چلے جاو(تمھاری جگہ پر ہو چکی ہے) !" یہ ہی وجہ ہے کہ قومیں آپس میں اور ایک دوسرے کے ساتھ لڑ رہی ہیں۔ شیطان ٹکنالوجی پھیلا رہا ہے، اور بنی آدم سے اس کی قابلیت اور سکت چرا رہا ہے، انہیں ٹھکرا کر کہ رہا ہے کہ، "تمھارے لیئے کوئی کام نہیں کیونکہ اب ہم ہر کام ٹکنالوجی کے زریعے کرتے ہیں۔"اور اب قومیں دوسری قوموں کو مارنے پر تلی ہوئی ہیں، مگر جب تک وہ ٹکنالوجی کو نہیں ٹھکرائیں گے، یہ مصائل بڑھتے جائیں گے اور کبھی جتم نہیں ہوں گے۔ لوگ اپنے آپ کو اور دوسروں کو ٹکنالوجی کے زریعے مار ڑالیں گے، ایٹمی بموں کے زریعے؛ نہ صرف لاکھوں، بلکہ کڑوڑوں لوگوں کو، وہ اس دنیا کو تباہ کر دیں گے۔ لوگ مر رہے ہیں، قدرت بھی ختم کی جا رہی ہے، سمندروں میں اب زندگی نہیں رہی، پہاڑ آگ میں جل رہے ہیں، اور بنی آدم پر اس دنیا میں لعنت برس رہی ہے، ان کی اس ٹکنالوجی کی وجہ سے! اسے چھوڑ دو، آو اور قدرت سے دوستی کرو! تمھارے لیئے قدرت ہی کافی ہے!
اے بنی آدم! اے جاحل غافل لوگو! جب تک کہ تم قدرت کے خلاف چلو گے، مرتے رہو گے، قتل و غارت کرتے رہو گے، تکلیفیں اٹھاتے رہو گے، اور یہ سب کبھی ختم نہیں ہو گا۔ ٹکنالوجی ختم نہیں ہو گی، لیکن وہ مزید مصیبتیں کھڑی کرتی رہے گی کیونکہ ٹکنالوجی ْدرت کے خلاف ہے۔ جب انسان ٹکنالوجی کے زریعے قدرت کے خلاف جاتا ہے، تو قدرت بھی انسان کے خلاف ہو جاتی ہے۔ اس لیئے، حکومتیں اور ٹکنیکی ماحرین جو لوگوں کو ٹکنالوجی کے زریعے سکھاتے ہیں، وہ انہیں مار ڑالے گی، اور وہ بنی آدم کو مار ڑالیں گے! بنی آدم کے بد ترین دشمن، شیطان کا اصل مقصد ہے کہ وہ انسان کو اس دنیا سے ٹکنالوجی کے زریعے ختم کر ڑالے، کیونکہ ٹکنالوجی قدرت کے خلاف ہے۔ جب قدرت ختم ہو گی، تو انسان بھی ختم ہو جائے گا۔ اور اب تمام قومیں ٹکنالوجی پر چل رہی ہیں۔
اے لوگو! اگر ہم قدرت سے دوستی کی جانب نہ لوٹے، اور اﷲ کی جانب سے تمھیں وہ ملتا رہا جو تم چاہتے ہو، تو تم بچ نہیں سکو گے۔ بلکہ تمہیں بہت سی مشکلات اور مصائل کا سامنا کرنا پڑے گا، تم روتے رہو گے اور مر جاو گے۔ میں نے آج تک یہ بات کسی سے نہیں سنی، مشرو یا مغرب میں، پروفیسرون، ڑاکٹروں یا ٹکنیکی لوگوں سے، حتہ کہ اسلامی دنیا بھی یہ نہیں کہ رہی کہ ، "آو اور قدرت سے دوستی کر لو؛ یہ تمھیں یہاں پر ہر مشکل میں پڑنے سے بچا لے گی، اور تمھیں اپنے رب کی لعنت کے سمندروں میں بھی گرنے سے بچائے گی۔"
اے لوگو! تمھین ضرور سمجھنا چاھیئے۔ میں تو ایک کمزور بندہ ہوں، لیکن وہ ایک کمزور طرین بندے سے خطاب کروا رہے ہیں، مجھے اور سب کو۔ اگر آپ کہتے ہیّ کہ یہ غلط ہے تو آپ آگ میں ہوں گے، اپنے آپ کو جلاتے ہوئے، اور آسمانوں کا رب ایک کیڑے تک کو جلا کر خوش نہیں ہوتا۔ اور وہ خوش نہیں ہے کہ تم ایک دوسرے کو مار رہے ہو!
وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ
اور نہ خون کرو آپس میں۔ (النسا، ۴:۲۹ )
ایک دوسرے کو قتل نہ کرو! بہت سے لوگ کہتے ہیں، " یا شیخ! ہم لندن سے آئے ہیں، اپنے بیٹے، بیٹیوں کو لے کر؛ ان کی کامیابی کے لیئے دعا فرمائیں۔" تھو ہے تم پر اور تمھاری کامیابی کے تصور پر! وہ بالکل جاہل ہیں، غافل لوگ۔ سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیئے دوڑھتے ہیں، جہاں ان کو قدرت کو مار کر ٹکنالوجی کے جھنڑے کو بلند کرنا سکھایا جاتا ہے۔" جتنا بھی ٹکنالوجی مارتی جا رہی ہے، وہ پھر بھی بیماروں کی طرہ کہتے جا رہے ہیں کہ، "کوئی فرق نہیں پڑتا، انہیں مرنے دو، اگر مٹھی بھر لوگ بھی رہ گئے تو پھر بھی ہم ٹکنالوجی کی وجہ سے خوش رہیں گے۔" یہ سچائی ہے، لیکن مجھے کہتے ہوئے افسوس ہے کہ مشرقی علماع اور مغربی ٹکنالوجی کے ماحرین اصلیت کی جانب دیکھنے کے لیئے توازن نہیں قائم کر رہے۔ ہم مصئل اور مشکلات کی اصلی وجوحات کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔
اے بنی آدم! اگر آپ کو پر مسرت اور اچھی زندگی پسند کرتے ہیں، دنیا اور آخرت میں، تو ٹکنالوجی کو چھوڑ دیں اور قدرت کی طرف واپس آ جائیں، قدرت سے دوستی کر لیں جو آپ کی ماں کی طرہ ہے جو انتھک ہے اور آپ کو سب کچھ میسر کرتی ہے۔ آسمانی رحمتیں کبھی ختم نہیں ہوں گی اور انسان کو کبھی نہیں چھوڑیں گی، لیکن جب انہیں بند کر کے رکھا جائے گا، تو اس دنیا میں ہمیشہ مصیبتیں رہیں گی۔
اﷲ مجھے اور آپ کو معاف فرمائے، اور اپنے بندوں کو بھی معاف فرمائے، خاتم النبین، سیدنا محمدؐ کی تعزیم مے خاطر! (مولانا شیخ کھڑے ہوتے اور بیٹھ جاتے ہیں)
فاتحہ