Available in: English   Turkish   Arabic   Urdu   Dutch   Go to media page

پہلا طمانچہ مسلم دنیا پر ہے

سلطان الاولیاء

مولانا شیخ ناظم الحقانی

۱ اپریل ۲۰۱۱ لفکے، قبرص

(مولانا شیخ کھڑے ہوتے ہیں) اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر، اللہ اکبر، وللہِ الحمد! (مولانا شیخ تشریف رکھتے ہیں)۔۔۔سیدالاولین ولآخرین سیدنا محمد ﷺ (مولانا شیخ کھڑے ہوتے ہیں اور تشریف رکھتے ہیں) ومن طبعہم بِاحسان الا یوم القیامہ۔

اے لوگو! ہم کہتے ہیں، اعوذباللہِ من شیطان الرجیم۔ بسم اللہِ الرحمان الرحیم۔

اے ہمارے حاضرین! مجھے پسند ہے کہ تمام انسانیت جمعۃ المبارک کو اس خطاب میں شرکت کرے، کیونکہ یہ تمام انسانیت کے لئے ہے، صرف مٹھی بھر لوگوں کے لئے نہیں ہے۔ ہم جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں، وہ تمام انسانیت کے لئے ہے اور ہم نے اپنے رب سے وعدہ کیا تھا، (مولانا شیخ کھڑے ہوتے اور تشریف رکھتے ہیں) جب ہم نے کہا تھا، "آپ ہمارے رب ہیں!" جب اس نے پوچھا تھا، "کیا میں تمہارا خالق اور رب نہیں ہوں؟" تمام انسانیت کی ارواح اتنے خوبصورت لباس میں ملبوس تھیں کہ آپ تصور نہیں کرسکتے! جب عہد کے دن وہ بارگاہِ ربانی میں موجود تھے، انہوں نے کہا، "جی، اے ہمارے رب! آپ ہمارے خالق ہیں!" جب انہوں نے یہ کہا، تو ان سب کو عزت و اکرام کے لباس میں ملبوس کر دیا گیا۔

"کیا تم میرے بندے ہو؟ کیا تم میری بندگی قبول کرتے ہو؟"

ان سب نے کہا، "جی! آپ ہمارے رب ہیں اور ہم آپ کے کمزور بندے ہیں!"

"اے میرے بندوں! میری بندگی کے لباس میں ملبوس ہونا مخلوق کےلئے سب سے بلند شرف ہے، اور میں نے تم کو اس سے ملبوس کیا ہے۔"

اس وقت ہم سب کو آسمانی لباسِ شرف میں ملبوس کیا گیا تھا، لیکن پھر کیا ہوا؟ مدد، یا سلطان الاولیاء۔ ان میں سے کچھ نے اپنا وعدہ نبھایا، اور کہا، "ہم آپ کے بندے ہیں،" اور وہ مقدس لباس ان پر موجود رہا۔ وہ لوگ جو اس زندگی میں آنے کے بعد اپنا وعدہ نبھا نہ سکے اور بھول گئے کہ ان کو لباسِ شرف پہنایا گیا تھا، انہوں نے کہا، "ہم بندے نہیں ہیں، ہم خدا ہیں!"

جب کوئی اپنا عہد بھول جاتا ہے، تو وہ دعوٰی کرتے ہیں کہ وہ بندے نہیں ہیں، "ہم بندہ ہونا قبول نہیں کرتے۔" اس لئے، ان کا برا اور بدترین استاد کہتا ہے، "ہاں، میں تمہاری ایسے شرف کی طرف رہنمائی کر رہا ہوں کہ تم اپنی بندگی بھول جائو گے اور تم میں سے ہر کوئی کہے گا، "میں فلاں ہوں۔ میں بادشاہ ہوں، ایڈمِرل ہوں، فیلڈ مارشل ہوں، وزیرِ اعلٰی ہوں، صدر ہوں۔"

(اگر ہم پوچھیں) "آپ صدر کیسے بنے؟" (وہ جواب دیں گے) "کیونکہ لوگوں نے ووٹ دیا کہ میں (عام) بندہ نہیں ہوں، میں تمہارا خاص شخص ہوں اور تم میرے بندے (خادم) ہو! میں تمہارے صدر مقام (ہیڈ کوارٹر) کا صدر ہوں۔"

(اگر ہم پوچھیں) "کس نے تم کو یہ شرف بخشا؟" (وہ جواب دیں گے) "میرے لوگوں نے۔" ابتدا سے انتہا تک، شیطان اس کوشش میں ہے کہ لوگ اللہ کی بندگی کو قبول نہ کریں! پھر اللہ تعالٰی فرماتا ہے، "میں دیکھتا ہوں کہ تمہارے ساتھ کیا ہوتا ہے جب تم میرا وعدہ توڑ دیتے ہو۔" کیا ہورہا ہے؟ وہ لوگ اپنی قوم کے تمام شہریوں کو بندہ نہ بننے کی تعلیم دے رہے ہیں۔ بندوں کے لئے شرف ہے، لیکن کوئی شرف نہیں رہتا جب وہ لوگوں کو شیطان کا غلام اور نمائندہ بنا دیتے ہیں! ایسا کون کر رہا ہے؟ مصر کا صدر، لیبیا کا ایک حاکم، ترکی میں ایک حاکم، دمشق میں ایک حاکم، یمن کا ایک حاکم! (اللہ فرماتا ہے) "تم اللہ کا بندہ ہونا قبول نہیں کرتے،جو تمہارا خالق ہے، اس لئے میں اب تم کو شیطان کا غلام یا نمائندہ بنا رہا ہوں!"

تمام حکمران اور جابرین شیطان کے نمائندے ہیں، اور جب لوگ کہتے ہیں، "ہم تم سے تنگ آچکے ہیں، یہاں سے چلے جائو، ہم خود اپنا خیال رکھیں گے،" تو وہ کہتے ہیں، "تم کیسے یہ کہہ سکتے ہو؟ نئے ہتھیار لائو ، نئے ایٹمی بم، نئے جہاز جن کو ہم استعمال کرسکیں ان لوگوں کے خلاف جو مجھ کو اپنا مالک قبول نہیں کرتے، اور ان کو قتل کردو!" اور وہ مار دئے جاتے ہیں۔ یہ بہت واضح ہے؛ وہ حکمران کہتے ہیں، "میں یہاں موجود ہوں۔ میں تمہارا مالک ہوں، اور تم کو میری اطاعت کرنی چاہئیے ورنہ میں تم کو قتل کردوں گا۔"

یہی مصیبت ہے اب مشرق تا مغرب۔ خاص طور پر یہ مسلم دنیا کے لئے بڑی شرم کی بات ہے، کیونکہ اللہ نے ان کو حکم دیا تھا کہ ایک شخص کو تمام مسلم برادری کا سلطان بنائو۔ اور (جب سے آخری سلطان کو ہٹا دیا گیا) مسلم لوگ اب جہالت کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں! لوگ اب (اپنے حکمران سے) کہتے ہی، "ہم اب تمہاری اطاعت نہیں کریں گے،" اور شیطان کے نمائندے اور خلیفہ کہتے ہیں، "یہ تخت صرف میرے لئے ہے اور تم سب میرے غلام ہو! اگر تم میری اطاعت نہ کرو تو میں سب کو قتل کر دوں گا اور سب کچھ چھین لوں گا!"

یہ اقوام اور ان کے شہریوں کا پس مرگی معائنہ (آٹوپسی) ہے، اور یہ سو فیصد درست ہے۔ اللہ تعالٰی سیدالاولین والآخرین، خاتم الانبیاءﷺ سے فرماتا ہے، "اے میرے محبوب! یہ مت سمجھیں کہ میں نے صرف مٹھی بھر لوگوں کو موقع دیا ہے فرعون یا نمرود بننے کا، نہیں! تمام انسان جن کو میں نے موقع دیا اول درجے پر آنے کا، جیسے قذافی، وہ سب ہٹا دئے جائیں گے اور ان کی جگہ کوئی اور آئے گا۔ اگر تم کسی کو موقع دو کہ وہ تمہارا حاکم یا فردِ اول بنے اور تم اس کے سامنے سر خم کر دو، تو وہ اپنے پیشرو/ پچھلے کی طرح ثابت ہوگا۔ اس سے پہلے ایک فرعون یا نمرود تھا، اور اگر تم ان کی جگہ کسی اور کو لائو تو تم ان کو پہلے (حاکم) کے جیسا ہی پائو گے۔"

اس لئے، اب عرب کے تمام ممالک، ترکی اور دوسری اقوام کہہ رہی ہیں، "ہمیں اپنا قانون بدلنا چاہئیے اور نیا آئین لانا چاہِئیے،" لیکن لوگ اب عقل سے پیدل ہیں۔ اللہ تعالٰی کے فرمان سب سے کامل اور حق ہیں، جو آسمان سے نازل ہو رہے ہیں۔ اگر تم اپنے طور طریقے نہ بدلو، تو تم وہی پائو گے جو تمہارے آباءواجداد نے پایا۔

اے لوگو! تم خود کو اژدہوں اور نمرود سے صرف اس صورت میں بچا سکتے ہو کہ تم اللہ کے آسمانی احکامات کی پاسبانی کرو۔ اگر تم نیا قانون/حکومت لائو، تو وہ (حکمران) اصل طاقت اپنے پاس رکھیں گے اور صرف چند اصول تبدیل کر دیں گے۔ اپنے لوگوں سے وہ کہتے ہیں، "یہ بہترین ہے،" اور اصل طاقت وہ اپنے پاس رکھتے ہیں؛ اس طرح وہ لوگوں کو دھوکہ دئیے جارہے ہیں! وہ کبھی آسمانی اصول قبول نہیں کرتے، کہتے ہیں، "ہم آسمانی اصول قبول نہیں کر سکتے، ہمیں اپنے اصول بنانے ہوں گے۔"

جو کوئی ایسا کہہ رہا ہے، وہ شیطان سے سند یافتہ اور تصدیق شدہ ہے، اس پر یقین نہ کرو! جو کوئی کہے، "ہم نئے اصول لا رہے ہیں،" وہ شیطان کا شاگرد ہے، جو ان کو تربیت دیتا ہے لوگوں کو دھوکہ دینے کی؛ چنانچہ، ان پر وہی مصیبتیں نازل ہورہی ہیں (جو ان کے پچھلے حکمران پر ہوتی تھیں) کیونکہ وہ قبول نہیں کرتے۔

(مولانا شیخ کھڑے ہوتے ہیں) اللہ تعالٰی نے فرمایا:

إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ

بے شک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف اور نیکی کا۔ (سورۃ نحل، ۱۶:۹۰)

(مولانا شیخ تشریف رکھتے ہیں) عدل، اصل انصاف وہ ہے جو آسمانوں سے منتخب بندوں اور انبیاء کو بھیجا گیا۔ اب تمام اقوام انبیاء کا انکار کر رہی ہیں، خاص طور پر مسلم دنیا میں۔ مجھے افسوس ہے کہ شیطان بھی ان کو دھوکہ دیتا ہے اور وہ آسمانی قوانین قبول نہیں کرتے، کہتے ہیں، "ہم نیا آئین لا رہے ہیں۔"

ہم تمہارا (نیا قانون) قبول نہیں کرتے! ہم مسلمان ہیں اور ہم ان کی نفسانی خواہشات کی بنیاد پر بنے قانون کو قبول نہیں کرتے، نہیں! چنانچہ، مصر، شام، یمن، اران، عراق، ترکی، تنیسیا، الجیریا اور دوسے مسلم ممالک کا کوئی انجام نہیں۔ یہ حق نہیں کہ مسلمان دنیا میں ایک سے زیادہ صاحبِ اختیار ہو! مسلمان دنیا اتنے فرقوں میں کیوں بنٹی ہوئی ہے؟ اللہ تعالٰی نے حکم دیا ہے کہ صرف ایک امام، ایک سلطان ہونا چاہئیے! ہر بات سے پہلے، مسلمانوں کا ایک خلیفہ ہونا چاہئیے جس کی پوری مسلمان دنیا پر حکومت ہو۔

اور اس کے باوجود، پوری دنیا چینی حکومت سے ڈرتی ہے کیونکہ اس کی عوام صرف ایک شخص کی تابعدار ہے۔ مسلمان اللہ تعالٰی کے احکامات کی پیروی کیوں نہیں کرتے؟

اس لئے، پہلا طمانچہ مسلم دنیا پر پڑے گا، اور اب آپ دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی دنیا میں یکے بعد دیگرے کیا ہو رہا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ مصر کہتا ہے، :ہم مذہمی اختیار کا مرکز ہیں، ہمیں اختیار ہے اسلام کے بارے میں بولنے کا۔" میں پوچھتا ہوں، اسلام تم سے کیا کہتا ہے؟ شریعت کہاں ہے؟ اللہ تعالٰی نے شریعت کیوں بھیجی؟ کیا تم کو شرم نہیں آتی یہ کہتے ہوئے کہ، "ہم اسلام پر اختیار رکھتے ہیں۔"کیسے ( تم ایسا کہہ سکتے ہو)؟ شریعت حکم دیتی ہے کہ جو کوئی اپنی طرف سے کچھ لائے/تجویز کرے، وہ اس کے نفس کی پیداوار ہے۔ چنانچہ، ایک کے بعد ایک، طمانچہ پڑ رہا ہے اسلامی دنیا پر، اور ایسا ہوتا رہے گا جب تک کہ وہ امام، اسلام کے سلطان کے آگے سر خم نہ کردیں۔ اور یہ سب اس وقت تک ایک مکمل حقیقت نہیں بن سکتا جب تک کہ سیدنا مہدی(ء) نہ آ جائیں!

اے لوگوں! وہ جو سن رہے ہیں ان کو ایک طمانچہ پڑے گا، اور وہ جو خیال نہیں رکھتے، ان کو ایک سو طمانچے پڑیں گے! جب تک کہ وہ ایک امام کو قبول نہیں کرلیتے، وہ ہاروت اور ماروت کی طرح ہونگے، جنہوں نے آسمانی احکامات کا پاس نہ کیا، اور اس لئے ان کو سزا دی گئی، ان کے سر نیچے تھے اور پیر اوپر! اللہ نے ان کو سزا دی کہ وہ پیاسے رہیں۔ ان کے منہ اور پانی کے درمیان چار انگلیاں تھیں، دس سینٹیمیٹر کی۔ وہ بہت پیاسے تھے، لیکن وہ پانی تک نہیں پہنچ سکتے تھے جب تک کہ وہ آسمانی احکامات کی پیروی نہ کرتے۔ صرف اسی صورت میں وہ پانی پی سکتے تھے۔

اب پوری اسلامی دنیا اس حالت میں ہے! اللہ تعالٰی نے بہت واضح مثالیں دیں ہیں (ماضی میں رونما ہونے والے واقعات کی۔) یاربی، شکر! لیکن مسلمان اور ان کے رہنما آسمانی احکامات کو قبول نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں، "ہم نئے قوانین بنائیں گے۔" اللہ نے ان کو ہاروت اور ماروت کی طرح بنا دیا ہے۔ ان کو چھوڑ دو، وہ اپنے قانون کو دیکھتے رہیں!

اے عرب قوم! سنو! تم سب سے پہلے سزا کے مستحق ہو۔ اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ آسمانی عذاب عرب حکومتوں سے شروع ہورہا ہے: الجیریا، تونیسیا، لیبیا، مصر، سڈان، شام، فلسطین، عراق، بحرین اور یمن؛ پہلے طمانچے ان پر پڑ رہے ہیں۔ وہ دیکھ لیں گے کہ چالیس دنوں کے اندر کیا ہوتا ہے ان لوگوں کے ساتھ، جو شریعت اللہ کی خلاف ورزی پر مصر ہیں۔ وہ جو پارلیمنٹ اور ممبرانِ پارلیمنٹ کو قائم کرتے ہیں؛ ان کو ان کے سروں پر سے سزا دی جائے گی۔ پہلی سزا عرب قوم پر ہوگی اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ عرب دنیا اب بھاری سزا کے زیرِ اثر ہے۔ (کچھ نہیں بدلے گا) جب تک کہ ان میں سے ایک کھڑا ہو کر کہے، "میں اللہ تعالٰی کے آسمانی احکامات کو قائم کرتا ہوں جو اس نے ہمارے لئے بھیجے ہیں، ہماری حقیقی زندگی کے لئے، دنیا اور آخرت کی دائمی زندگی کے لئے۔"

اللہ ہمیں معاف فرمائے! یہ ایک سمندر ہے جو ایک یا دو گھنٹوں، ایک یا دو دن، ایک یا دو ماہ، ایک یا دو سال میں ختم نہیں ہو سکتا، لیکن آپ کے لئے اتنا کافی ہے کہ آپ اس پر غور کریں۔ وہ جو نہیں سوچتے، ان کے سروں پر ایک آسمانی طمانچہ آئے گا!

إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ

بے شک اللہ کسی قوم سے اپنی نعمت نہیں بدلتاجب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں۔ (سورۃ رعد، ۱۳:۱۱)

.

جب تک کہ بندے صحیح راستے کو قبول نہ کریں، آسمانی قانونِ شریعت اللہ کو، ان کو سزا اور طمانچے پڑتے رہیں گے۔ اور یہ (سلسلہ) کبھی ختم نہ ہوگا جب تک کہ وہ قرآن کریم کے اصولوں کو تسلیم نہ کریں گے۔

اے لوگو! اپنا ادب ملحوظ رکھو۔ اللہ تعالٰی اور اس کے رسول ﷺ پر اپنا ایمان قائم رکھو، پھر تم دنیا اور آخرت میں خوش رہو گے۔ اللہ ہمیں معاف فرمائے۔

فاتحہ۔

UA-984942-2